
عید الاضحی سنت ابراہیمی کے عہد و وفا کی تجدید کا دن
عید الاضحی
سنت ابراہیمی کے عہد و وفا کی تجدید کا دن
مفتی محمد وقاص رفیع
ماہِ ذی الحجہ کے شروع ہوتے ہی عید الاضحی کے حوالے سے کئی یادیں ، کئی باتیں ، کئی جذبے اور کئی ولولے فرزندانِ اسلام کے ایمانی نخلستان میں پھلنے پھولنے اور انگڑائیاں لینے لگتے ہیں اور لوگ آج سے ہزاروں سال قبل حضرت ابراہیم ، حضرت اسماعیل اور حضرت ہاجرہ علیہم السلام کی یاد میں اُن کی قدیم ترین (حج بیت اللہ ، شیطان کو کنکریاں مارنے، اور قربانی جیسی) بے مثال و باکمال اداؤں اور روایات کو دہرانے اور انہیں پورا کرنے کے لئے دُنیائے اسلام کے چپہ چپہ پر دیوانہ وار ہر چہار سو شاداں و فرحاں اور کوشاں نظر آتے ہیں ، جب حضرت ابراہیم علیہ السلام بحکم خداوندی اپنی قوم و وطن کو خیر آباد کہہ کر اپنے اہل و عیال کو ساتھ لے کر ہجرت کرکے عراق سے ملک شام چلے آئے تھے
آں کس کہ ترا شناخت جاں را چہ کند؟
”فرزند و عیال ” و”خانماں” را چہ کند؟
ترجمہ:جس شخص نے تجھے پہچان لیا وہ جان کو کیا کرے؟ اہل و عیال کو کیا کرے ، ساز و سامان کو کیا کرے؟مطلب یہ ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ کی ذات کی معرفت نصیب ہوجاتی ہے پھر وہ اپنی جان و مال، اہل و عیال اور ساز و سامان کو اللہ کے راستہ میں قربان کرنے سے نہیں ہچکچاتا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم و وطن کو چھوڑ کر ابھی ملک شام میں قیام کیا ہی تھا کہ حکم ہوا کہ اپنی بیوی حضرت ہاجرہ علیہ السلام اور اپنے شیر خوار بچے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو ساتھ لے کر اب یہاں سے بھی کوچ کرو! ( تفسیر ابن کثیر: ج 03ص231)
حضرت جبرئیل علیہ السلام آئے اور تینوں کو ساتھ لے کر چلے ، راستہ میں جہاں کہیں کوئی سر سبز جگہ آتی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے کہ یہاں ٹھہرادیا جائے ، حضرت جبرئیل علیہ السلام فرماتے کہ یہاں ٹھہرانے کا حکم نہیں، منزل آگے ہے ، چنانچہ جب وہ خشک پہاڑ اور ریگستان آیا جہاں آگے کسی وقت بیت اللہ کی تعمیر شہر مکہ کی بستی بسانا مقدر تھا ، تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ اب یہاں ٹھہر جاؤ! چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے پروردگار میں محبت میں مسرور و مگن اس ریگستانی بے آب و گیاہ چٹیل میدان میںاپنی بیوی اور بچے کو لے کر وہاں ٹھہر گئے ، لیکن یہ امتحان اسی پر ختم نہیں ہوا بلکہ اگلا حکم یہ ملا کہ اب بیوی بچے کو یہیں چھوڑ کر خود ملک شام واپس تشریف لے جائیں ! حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کا حکم پاتے ہی اُس کی تعمیل میں اُٹھ کھڑے ہوئے اور ملک واپس ملک شام روانہ ہوگئے اور اس دوران اتنی تاخیر بھی گوارہ نہیں کی کہ بیوی کو یہ اطلاع ہی دے دیں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے واپس ملک شام جانے کا حکم دے دیا ہے ، حضرت ہاجرہ علیہ السلام نے دو تین آوازیں دیں اور عرض کیا کہ ہمیں اس لق دق بیابان صحراء جنگل میں چھوڑ کر کہاں جارہے ہیں؟ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دینا تو درکنار پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا ، حضرت ہاجرہ علیہا السلام بھی آخر نبی کی بیوی اور نبی کی ماں تھیں اس لئے فوراًسمجھ گئیں کہ لگتا ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے ، اس لئے عرض کرنے لگیں کہ : ”کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟” تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا :”جی ہاں اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ حکم دیا ہے۔” حضرت ہاجرہ علیہا السلام فرمانے لگیں: ”پھر اللہ تعالیٰ ہمیں ضائع نہیں فرمائے گا۔”
اب حضرت ہاجرہ علیہا السلام اپنے شیر خوار بچہ کے ساتھ اس لق دق بیابان جنگل میں اپنا وقت گزارنے لگیں ، جب پیاس کی شدت نے آپ کو پانی تلاش کرنے پر مجبور کیا، تو بچہ کو کھلے میدان میں چھوڑ کر آپ صفا مروہ کی پہاڑیوں پر بار بار اترتی چڑھتی رہیں ، تاکہ پانی کے آثار کہیں نظر آجائیں ، یا کوئی ایسا انسان میسر آجائے جس سے پانی کی معلوم حاصل کرلی جائیں، سات مرتبہ کی اس دوڑ دھوپ کے بعد جب کہیں سے پانی کا کوئی سراغ نہ ملا تو مایوس ہوکر واپس اپنے بچے کے پاس تشریف لے آئیں ، تو کیا دیکھتی ہیں جس جگہ بچہ پیاس کی شدت سے نڈھال ہوکر اپنے ننھی ننھی ایڑیاں رگڑ رہا ہے وہاں سے اللہ تعالیٰ نے پانی کا ایک چشمہ جاری کردیا ہے جسے ”آب زم زم” کہا جاتا ہے ۔ حضرت ہاجرہ علیہا السلام کا پانی کی تلاش میں صفا مروہ کی پہاڑیوں پر سار مرتبہ دوڑنا اس قدر پسند آیا کہ اُسے اللہ تعالیٰ نے تا قیامت حجاج کرام کے لئے ”احکام حج” میں ضروری قرار دیا ہے ۔
آب زم زم کو دیکھ کر اوّل جانور آتے ہیں ، پھر جانوروں کو دیکھ کر انسان آتے ہیں اور اس طرح رفتہ رفتہ مکہ مکرمہ کی آبادی کا سامان ہوجاتا ہے اور ضروریات زندگی کی کچھ آسانیاں مہیا ہوجاتی ہیں ۔ زندگی نے وفا کی اور توفیق ایزدی نے ساتھ دیا تو ان شاء اللہ! عید الاضحی کے بعد ”برکات زمزم” کے موضوع پر ایک مضمون لکھ کر قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کروں گا۔
بہر حال اس دوران حضرت ابراہیم علیہ السلام گاہے بگاہے ملک شام سے مکہ مکرمہ آتے جاتے رہتے اور اپنی بیوی بچے کی خیر خیریت معلوم کرتے رہتے ، نومود بچہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے جب اس بے کسی اور بے سرو سامانی اور بہ ظاہر شفقت پدری سے کلیتاً محرومی کے عالم نشو و ونما پالی اور کام کاج کے قابل ہوگئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میںیہ حکم ملا کہ اب وہ اپنے اکلوتے بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو میرے راستہ میں ذبح کردیں ، چوں کہ انبیاء علیہم السلام کے خواب ہمارے خوابوں کی طرح محض خواب خیال نہیں ہوتے بلکہ اُن کے خواب بھی حقیقت میں وحی ہی ہوتے ہیں اس لئے جب صبح ہوئی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو اپنا خواب سنایا اور اُنہیں پرکھنے کے لئے اُن سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہیں اپنے راستہ میں ذبح کردینے کا حکم فرمایا ہے تمہاری اس بارے میں کیا رائے ہے ؟ ہونہار بیٹے نے جواب دیا کہ اے میرے ابا! آپ کو جو حکم دیا جارہا ہے آپ اُسے پورا کیجئے!
یہ ” فیضانِ نظر” تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسمٰعیل کو آدابِ فرزندی؟
چنانچہ صبح کے دھندلکے ہی میں کم سن بیٹا حضرت اسماعیل علیہ السلام اپنے بوڑھے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہم راہ تعمیل ارشاد میںبغیر کسی حیل و حجت کے اپنے لڑکپن اور انگڑائی لیتی اُمنگوں کی دُنیا اور باپ اپنی سوسالہ دعاؤں اور آرزوؤں کانخل تمنا اللہ تعالیٰ کے راستہ میں قربان کرنے کے لئے شاداں و فرحاں روانہ ہوگئے
غریب و سادہ و رنگین ہے داستانِ حرم
نہایت اِس کی حسین ، ابتداء ہے اسماعیل
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس کی تفصیل یوں بیان فرمائی ہے: ”ترجمہ: پھر جب وہ لڑکا ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا ، تو انہوں نے کہا: ”میرے بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں ذبح کر رہا ہوں ، اب سوچ کر بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟” بیٹے نے کہا: ”ابا جان! آپ وہی کیجئے جس کا آپ کو حکم دیا جارہا ہے ، انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے ۔” چنانچہ ( وہ عظیم منظر تھا) جب دونوں نے سر جھکا دیا ، اور پاب نے بیٹے کو پیشانی کے بل گرایا ، اور ہم نے اُنہیں آواز دی کہ : اے ابراہیم! تم نے خواب کو سچ کر دکھایا ، یقینا ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح صلہ دیتے ہیں ۔” یقینا یہ ایک کھلا ہوا امتحان تھا اور ہم نے ایک عظیم ذبیحہ کا فدیہ دے کر اُس بچے کو بچا لیا ، اور جو لوگ اُن کے بعد آئے، اُن میں یہ روایت قائم کی(کہ وہ یہ کہا کریں کہ:) سلام ہو ابراہیم پر، ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح صلہ دیتے ہیں ، یقینا وہ ہمارے مؤمن بندوں میں سے تھے۔” (ترجمہ مفتی تقی عثمانی) (سورة الصّٰفّٰت:102…111)
امام فخر الدین رازی رحمة اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ شیطان نے تین مرتبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس موقع پر بہکانے کی کوشش کی ، لیکن آپ نے ہر بار سات کنکریاں مار کر اسے بھگادیا ۔ (تفسیر کبیر: ج 18ص421) اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ وفاء اور اداء اس قدر پسند آئی کہ اسے تاقیامت یاد گار کے طور وادیٔ منیٰ میں ہر حاجی کے لئے احکام حج میں ضروری اور لازمی قرا دیا۔اللہ تعالیٰ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کا ذبح کراناہرگز مقصود نہ تھا بلکہ اُن کو تو اِن کے ایمان کا امتحان لینا مقصود تھا اور بس! اس لئے فوراً جنت سے ایک مینڈھا اُتار دیا اور فرمایا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ اس مینڈھے کی قربانی کرو اور اسے ذبح کرو!
شاعر مشرق علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
صدقِ خلیل بھی ہے عشق، صبر حسین بھی ہے عشق
”معرکۂ وجود” میں ” بدر و حنین” بھی ہے عشق
اہمیت قربانی:
عید الاضحی میں قربانی کی یہ سنت سنت ابراہیمی اُس وقت سے لے کر آج تک حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل علیہما السلام کی یاد میں چلی آرہی ہے ۔ قربانی کرنا واجب ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد ہرسال قربانی فرمائی، کسی سال ترک نہیں فرمائی۔اور جس عمل کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لگاتار کیا اور کسی سال چھوڑا نہ ہو تو یہ اُس عمل کے واجب ہونے کی دلیل ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی نہ کرنے والوں پر مختلف قسم کی وعیدیں ارشاد فرمائی ہیں۔
چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کو وسعت ہے (یعنی اُس پر قربانی واجب ہے) پھر بھی اُس نے قربانی نہیں کی تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔(مسند احمد:8239)
لیکن افسوس کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس فرمان کے باوجود بعض لوگ اِس کو حجت نہیں مانتے ہیں اور وہ قربانی کی مخالفت کرکے اُس کا سرے سے ہی انکار کرتے ہیں، بلکہ بعض لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ غریبوں، یتیموںسکینوں اور بیواؤں وغیرہ لوگوں میں یہ پیسے تقسیم کر دیئے جائیں اور اِن سے قربانی نہ کی جائے،حالاں کہ یہ خیال بالکل غلط اور خلافِ شریعت ہے، اُس کی وجہ یہ ہے کہ ایک عمل کی صورت ہوتی ہے اوردوسری اُس کی حقیقت ہوتی ہے، قربانی کے عمل کی صورت اور اُس کی حقیقت یہی ہے کہ قربانی کے دنوں میں قربانی ہی کی جائے ،اُس کی رقم کہیں اور خرچ نہ کی جائے، کیوں کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے بڑی عجیب و غریب مصلحتیں ہیں جن کا ادراک انسانی عقل و شعور سے کسی بھی طرح ممکن نہیں، اسی لئے حقیقی مؤمن اللہ تعالیٰ کا ایک فریضہ سمجھ کر اسے ادا کرنا اپنے لئے باعث سعادت و افتخار سمجھتا ہے اور ہر سال لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں عید الاضحی کے موقع پر مختلف قسم کے جانور ذبح کرکے مسلمان اپنے رب کے سامنے عہدو وفا کی تجدید کرتے ہیں اور حضرت ابراہیم و حضرت اسمٰعیل علیہم السلام اور اپنے مشفق و مربی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک اداؤں پر سو جان سے نثار ہوتے ہیں۔
فضائل قربانی:
قربانی کرنے کی بڑی فضیلتیں وارد ہوئی ہیں۔ چنانچہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا : ”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہ قربانی کیا ہے؟” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: ”یہ تمہارے والد گرامی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ” … اور فرمایا: ”استطاعت کے باوجود جو شخص قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کا رُخ بھی نہ کرے ! ان تین دنوں میں قربانی سے بڑھ کر کوئی دوسرا نیک عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں پسندیدہ نہیں ہے۔”صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ ہمارے لیے اس میں کیا ثواب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس کے ایک ایک بال کے عوض ایک ایک نیکی ہے۔ اور اُون کے متعلق آپ نے ارشاد فرمایاکہ اس کے ایک ایک بال کے عوض بھی ایک نیکی ہے۔(مشکوٰة المصابیح: 129)
حضرت عائشہ رضی للہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قربانی کے دن اِس سے زیادہ کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں محبوب نہیں، اورقیامت کے دن قربانی کا جانور سینگوں، بالوںاور کھروں کے ساتھ لایا جائے گا ۔اور فرمایا کہ قربانی کا جانور خون کے زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے یہاں قبولیت کی سند لے لیتا ہے، اس لیے تم قربانی خوش دلی سے کرو۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قربانی سے زیادہ کوئی دوسرا عمل زیادہ فضیلت والا نہیں، الا یہ کہ رشتہ داری کا پاس کیا جائے۔ (الترغیب والترہیب 774)
ایک حدیث میں آتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاسے ارشاد فرمایا کہ تم اپنی قربانی ذبح ہوتے وقت موجود رہنا، کیونکہ اُ س کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے اُس انسان کی مغفرت ہوجاتی ہے۔ (الترغیب والترہیب 774)
قربانی کی فضیلت کے بارے میں متعدد احادیث ہیں، اس لیے اہل اسلام سے درخواست ہے کہ اس عبادت کو ہرگز ترک نہ کریں جو اسلام کے شعائر میں سے ہے۔ اور اس سلسلہ میں جن شرائط وآداب کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے،اُنہیں اپنے سامنے رکھیں اور قربانی کا جانور خوب دیکھ بھال کر خریدیں۔
مسائل قربانی :
جس شخص پر صدقۂ فطر واجب ہے، اُس پر قربانی بھی واجب ہے۔ مسافر پر قربانی واجب نہیں۔
قربانی کا وقت دسویں تاریخ سے لے کر بارہویں تاریخ کی شام تک ہے، بارہویں تاریخ کا سورج غروب ہوجانے کے بعد قربانی کرنا درُست نہیں۔
شہر اور قصبوں میں رہنے والوں کے لیے عید الاضحی کی نماز پڑھ لینے سے قبل قربانی کا جانور ذبح کرنا درست نہیں ہے۔ دیہات اور گاؤں والے صبح صادق کے بعد فجر کی نماز سے پہلے بھی قربانی کا جانور ذبح کرسکتے ہیں۔ اگر شہری اپنا جانور قربانی کے لیے دیہات میں بھیج دے تو وہاں اس کی قربانی بھی نمازِ عید سے قبل درست ہے اور ذبح کرانے کے بعد اس کا گوشت منگوا سکتا ہے۔
اگر مسافر مال دار ہو اور کسی جگہ پندرہ دن قیام کی نیت کرے، یا بارہویںتاریخ کو سورج غروب ہونے سے پہلے گھر پہنچ جائے، یا کسی نادار آدمی کے پاس بارہویں تاریخ کو سورج غروب ہونے سے پہلے اتنا مال آجائے کہ وہ صاحب نصاب ہوجائے تو ان تمام صورتوں میں اس پر قربانی واجب ہے۔
قربانی صرف اپنی طرف سے کرنا واجب ہے، اولاد کی طرف سے نہیں، اولاد چاہے بالغ ہو یا نابالغ، مالدار ہو یا غیر مال دار۔
قربانی صرف سات جانوروں کی ہوتی ہے اونٹ، اونٹنی، بکرا، بکری، بھیڑ، دُنبہ، گائے، بیل، بھینس، بھینسا۔ بکرا، بکری، بھیڑ اور دُنبہ کے علاوہ باقی جانوروںمیں سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں، بشرطے کہ کسی شریک کا حصہ ساتویں حصہ سے کم نہ ہو اور سب قربانی کی نیت سے یا عقیقہ کی نیت سے شریک ہوں، صرف گوشت کی نیت سے شریک نہ ہوں۔
گائے، بھینس اور اُونٹ وغیرہ میں سات سے کم افراد بھی شریک ہوسکتے ہیں، مثلاً چار آدمی ہوں تو تین افراد کے دو دو حصے اور ایک کا ایک حصہ ہوجائے۔ نیز اگر پورے جانور کو چار حصوں میں تقسیم کرلیں تویہ بھی درست ہے۔ یا یہ کہ دو آدمی موجود ہوں تو نصف نصف بھی تقسیم کرسکتے ہیں۔ اسی طرح اگر کئی افراد مل کرایک حصہ ایصالِ ثواب کے طور پر کرنا چاہیں تو یہ بھی جائز ہے، البتہ ضروری ہے کہ سارے شرکا اپنی اپنی رقم جمع کرکے ایک شریک کو ہبہ کردیں اور وہ اپنی طرف سے قربانی کردے، اس طرح قربانی کا حصہ ایک کی طرف سے ہوجائے گا اور ثواب سب کو ملے گا۔
اگر قربانی کا جانور اس نیت سے خریدا کہ بعد میں کوئی مل گیا تو شریک کرلوں گا اور بعد میں کسی اور کو قربانی یا عقیقہ کی نیت سے شریک کیا تو قربانی درست ہے اور اگر خریدتے وقت کسی اور کو شریک کرنے کی نیت نہ تھی، بلکہ پورا جانور اپنی طرف سے قربانی کرنے کی نیت سے خریدا تھا تو اب اگر شریک کرنے والا غریب ہے تو کسی اور کو شریک نہیں کرسکتا اور اگر مال دار ہے تو شریک کرسکتا ہے لیکن ایسا کرنا بہتر نہیں۔
ایک جانور قربانی کرنے کے لیے خریدا،اگر اس کے بدلے دوسرا حیوان دینا چاہے تو جائز ہے، مگر یہ لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ دوسرا حیوان کم از کم اسی قیمت کا ہو، اگر اس سے کم قیمت کا ہو تو زائد رقم اپنے پاس رکھنا جائز نہیں، بلکہ صدقہ کرنا ضروری ہے۔ ہاں! اگر زبانی طور پر جانور کو متعین نہ کیا ہو، بلکہ یہ ارادہ کیا ہو کہ اگر اچھی قیمت میں فروخت ہورہا ہو تو فروخت کردیں گے۔ اس صورت میں اصل قیمت سے زائد رقم اپنے پاس رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔
قربانی کا جانور گم ہوگیا، اس کے بعد دوسرا جانورخریدلیا تو اگر قربانی کرنے والا مال دار ہے تو ان دونوں جانوروں میں سے جس کی چاہے قربانی کرے، اور اگر غریب ہے تو اُس پراُن دونوں جانوروں کی قربانی کرنا واجب ہے ۔
اگر کسی آدمی نے قربانی کے لیے جانور خریدا اور خریدنے کے بعد وہ جانور قربانی کرنے سے پہلے گم ہوگیا تو مال دار آدمی پر قربانی کے لیے دوسرا جانور خریدنا ضروری ہے، کیونکہ اس پر شرعاً قربانی واجب تھی اور واجب ادا نہیں ہوا، جب کہ فقیر آدمی پر دوسرا جانور خریدنا اور قربانی کرنا لازم نہیں تھا، اس کے باوجود غریب نے دوسرا جانور بھی خریدلیا، اب اگر مال دار اور غریب دونوں کا پہلا گم شدہ جانور مل جائے تو مال دار پر صرف شرعی واجب (قربانی) کا ادا کرنا ضروری ہے،یعنی دونوں جاموروں میں سے جس جانور کو ذبح کردے اُس کی طرف سے کافی ہوجائے گا، اور غریب نے اپنے اوپر چوں کہ دونوں جانوروں کی قربانی واجب کی تھی اِس لئے اُس کے لئے دونوں جانوروں کی قربانی کرنا ضروری ہوگا۔
قربانی کے جانور میں اگر کئی شرکاء ہیں تو گوشت وزن کرکے تقسیم کریں۔دنبہ بھیڑ،بکرا بکری جب ایک سال کے ہوجائیں تو اُن کی قربانی کرنا جائز ہے۔ اسی طرح بیل گائے،بھینسا بھینس جب دوسال کے ہوجائیں تو اُن کی قربانی کرنا جائز ہے اور اونٹ اور اونٹنی جب پانچ سال کے ہوجائیں تو اُن کی قربانی کرناجائز ہے، اس سے کم ہوں تو جائز نہیں۔ دنبہ اور بھیڑ کے بارے میں یہ مسئلہ ہے کہ اگر وہ اتنے موٹے تازے ہوں کہ سال بھر کے معلوم ہوتے ہوں تو اُن کی بھی قربانی جائز ہے۔
قربانی کا جانور اگر اندھاہو، یا ایک آنکھ کی ایک تہائی یا اس سے زائد رُوشنی جاتی رہی ہو،یا ایک کان ایک تہائی یا اس سے زیادہ کٹ گیا ہو، یا دُم ایک تہائی یا اس سے زیادہ کٹ گئی ہو تو ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے۔
گائے اور بھینس کے دو تھن یا بکری کا ایک تھن خشک ہو چکا ہو یا پیدائشی طور پر نہ ہوں تو ایسے جانور کی قربانی بھی درست نہیں۔ اسی طرح اگر جانور ایک پاؤں سے لنگڑا ہے، یعنی تین پاؤں سے چلتا ہے، چوتھے پاؤں کا سہارا نہیں لیتا تو ایسے جانور کی قربانی بھی جائز نہیں۔ ہاں! اگر وہ چوتھے پاؤں سے سہارا لیتا ہے، لیکن لنگڑا کے چلتا ہے تو ایسے جانور کی قربانی درست ہے۔
قربانی کا جانور خوب موٹا تازہ ہونا چاہیے، اگر جانور اس قدر کمزور ہو کہ ہڈیوں میں گودا بالکل نہ رہا ہو، تو ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے۔ بعض لوگ موٹا تازہ جانور محض دکھلاوے یا ریا ونمود کے لیے خرید تے ہیں، ایسے لوگ قربانی کے ثواب سے محروم ہوتے ہیں، ان پر لازم ہے کہ وہ موٹا تازہ جانور تلاش کرتے ہوئے محض ثواب کی نیت کریں۔
اگر کسی جانور کے تمام دانت گر گئے ہوں تو اس کی قربانی جائز نہیں ہے اور اگر اکثر دانت باقی ہوں، کچھ گر گئے ہوں تو قربانی جائز ہے۔اگر کسی جانور کی عمر پوری ہو اور دانت نہ نکلے ہوں تو بھی اُس کی قربانی ہوسکتی ہے، تاہم اس سلسلے میں صرف جانوروں کے عام سود اگروں کی بات معتبر نہیں ہے، بلکہ یقین سے معلوم ہونا ضروری ہے یا یہ کہ خود گھر میں پالا ہوا جانور ہو تو اس کی قربانی کی جاسکتی ہے۔
جس جانور کے پیدائشی کان ہی نہ ہوں، اس کی قربانی جائز نہیں ہے۔ اگر کسی جانور کے سینگ بالکل جڑ سے ٹوٹ چکے ہوں، اس طور پر کہ دماغ اس سے متاثر ہوا ہو تو ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں اور اگر معمولی ٹوٹے ہوں یا سرے سے سینگ ہی نہ ہوں، جیسے اونٹ تو ایسے جانور کی قربانی بلا کراہت جائز ہے۔اسی طرح گائے، بکری وغیرہ کے اگر پیدائشی سینگ نہ ہوں تو اُن کی قربانی بھی جائز ہے۔ اسی طرح خارش زدہ جانور کی قربانی جائز ہے، لیکن اگر خارش کی وجہ سے بے حد کمزور ہوگیا ہو تو پھر جائز نہیں۔
اگر قربانی کے جانور میں کوئی عیب پیدا ہوا جس کے ہوتے ہوئے قربانی درست نہ ہو تو مال دار شخص کے لیے یہ ضروری ہے کہ دوسرا جانور اس کے بدلے خرید کرقربانی کرے، غریب ہے تو اسی جانور کی قربانی کرسکتا ہے۔
اگر قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کے لیے گراتے ہوئے کوئی عیب پیدا ہوجائے، مثلاً ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ جائے یا سینگ وغیرہ ٹوٹ جائے تو اس سے قربانی پر اثر نہیں پڑے گا، البتہ جانور کو گراتے وقت احتیاط کرنا چاہیے۔
قربانی کے گوشت میں بہتر یہ ہے کہ تین حصے کرے، ایک حصہ اپنے لیے رکھے، ایک حصہ اپنے رشتہ داروں کو دے اور ایک حصہ فقراء ومساکین کو دے، لیکن اگر سارے کا سارا اپنے لیے رکھے تب بھی جائز ہے۔
قربانی کی کھال کسی کو خیرات کے طور پر دے یا فروخت کرکے اس کی قیمت فقراء کو دے، البتہ اگر کسی دینی تعلیم کے مدرسہ اور جامعہ کو دے دے تو سب سے بہتر ہے، کیونکہ علم دین کا احیاء سب سے بہتر ہے۔
قربانی کی کھال کو اپنے مصرف میں بھی لایا جاسکتاہے، اس طور پر کہ اس کا عین باقی رہے، مثلاً: مصلیٰ بنائے یا رسی یا چھلنی بنائے تو درست ہے۔
قربانی کی کھال کی قیمت مسجد کی مرمت یا امام ومؤذن یا مدرس یا خادم کی تنخواہ میں نہیں دی جاسکتی، نہ اس سے مدارس کی تعمیر ہوسکتی ہے اور نہ شفاخانوں یا دیگر رفاہی اداروں کی۔
قربانی کی کھال قصائی کو اجرت میں دینا جائز نہیں۔اگر کسی کی قربانی کی کھال چوری ہوگئی یا چھن گئی تو اُسے چاہیے کہ وہ کھال کی رقم صدقہ کردے، اگر استطاعت نہ ہو تو کوئی حرج نہیں، قربانی پر فرق نہیں پڑے گا۔
اگر قربانی کے تین دن گزر گئے اور قربانی نہیں کی تو اب ایک بکری یا بھیڑ کی قیمت خیرات کردے، اور اگر جانور خریدا تھا، مگر قربانی نہیں کی تو بعینہ وہی جانور خیرات کردے۔
ایصال ثواب کے لیے قربانی کاگوشت خود بھی کھا سکتا ہے اور دوسروں کو بھی کھلا سکتا ہے۔
اگر کسی شخص کے حکم کے بغیر اس کی طرف سے قربانی کی تو قربانی نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر کسی شخص کو اس کے حکم واجازت کے بغیر قربانی میں شریک کیا تو کسی کی بھی قربانی نہیں ہوگی، اسی طرح اگر حصہ داروں میں سے کوئی ایک صرف گوشت کی نیت سے شریک ہے تو کسی کی قربانی صحیح نہ ہوگی۔
قربانی کا گوشت غیر مسلم کو بھی دے سکتا ہے، البتہ کسی کو اجرت میں نہیں دے سکتا۔ گابھن جانور کی قربانی صحیح ہے، اگربچہ زندہ نکلے تو اس کو بھی ذبح کردے۔ اور گوشت آپس میں تقسیم کرنے کی بجائے صدقہ کردیا جائے۔قربانی کے جانور کے بال کاٹنا یا دودھ دوھنا درست نہیں ہے، اگر کسی نے ایسا کیا تو اُسے صدقہ کرے، اگر بیچ دیا تو اس کی رقم کو صدقہ کرنا واجب ہے۔اگر کوئی شخص اپنی قربانی کا گوشت سارا کا سارا کسی اور کوکھلا دے، خود کچھ بھی نہ کھائے تو ایسا کرسکتا ہے۔ خصی جانور کی قربانی جائز، بلکہ افضل ہے، کیونکہ اس میں دوسرے کی بہ نسبت گوشت زیادہ ہوتا ہے۔ اگر کسی نے قربانی کی نذر مانی اور وہ کام ہوجائے تو قربانی واجب ہے، اس کے گوشت سے خود نہیں کھا سکتا، سارا فقراء اور مساکین کو کھلادے۔
قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ تک بھی رکھ سکتا ہے۔
اگر کسی شخص کی ساری یا اکثر آمدنی حرام کی ہو تو اس کو اپنے ساتھ قربانی میں شریک نہیں کرنا چاہیے۔ اگر شریک کیا تو کسی کی قربانی نہیں ہوگی۔ ایسا شخص جس کی ساری کمائی حرام کی ہو، اس پر قربانی لازم نہیں، کیونکہ اس کا سارا مال واجب التصدق (بلانیت ثواب صدقہ کرنا ضروری) ہے۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ حرام مال سے کسی کا صدقہ قبول نہیں فرماتے، بلکہ وہاں صرف پاکیزہ مال سے کیا ہوا صدقہ وخیرات قبول ہوتا ہے۔ کسی نے مرتے وقت وصیت کی کہ میرے مال سے قربانی کی جائے تو اس قربانی کا سارا گوشت خیرات کرنا ضروری ہے، خود کچھ بھی نہ کھائے۔
آدابِ قربانی:
جو شخص قربانی کرنا چاہے اس کے لیے مستحب یہ ہے کہ یکم ذو الحجہ سے قربانی کا جانور ذبح ہونے تک نہ اپنے جسم کے بال کاٹے اور نہ ناخن۔ البتہ اگر زیر ناف اور بغل کے بالوںپرچالیس روز کا عرصہ گزر چکا ہو تو ان بالوں کی صفائی کرنا بہتر ہے۔
قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا زیادہ اچھا ہے، اگر خود ذبح نہ کرسکتا ہو تو کسی اور سے بھی ذبح کراسکتا ہے۔
بعض لوگ قصائی سے ذبح کراتے وقت آغاز میںخود بھی چھری پر ہاتھ رکھ لیا کرتے ہیں، ایسے لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ قصائی اور قربانی والے دونوں مستقل طور پر تکبیر پڑھیں، اگر دونوں میں سے ایک سے بھی تکبیر پڑھنا بھول گیا تو قربانی صحیح نہ ہوگی۔
قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت زبان سے نیت پڑھنا ضروری نہیں، دل میں بھی پڑھ سکتا ہے۔
قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت اس کو قبلہ رُخ لٹائے اور اس کے بعد یہ دعا پڑھے: ”ِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفاً وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ، ِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، لَاشَرِیْکَ لَہ وَبِذٰلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ، اَللّٰہُمَّ مِنْکَ وَلَکَ”۔ اس کے بعد ”بسم اللّٰہ اللّٰہ اکبر” کہہ کرذبح کرے۔ ذبح کرنے کے بعد یہ دعا پڑھے:”اللّٰہم تقبّلہ منّی کما تقبّلت من حبیبک محمد وخلیلک براہیم علیہما الصلوٰة والسلام”۔
ذبح کرتے وقت تکبیر کے علاوہ کچھ اور نہیں کہنا چاہیے، مثلاً:”باسم اللہ تقبل من فلان۔” (یعنی اللہ کے نام سے ذبح کرتا ہوں اور فلاں کی طرف سے قبول کی جائے۔)
ایک جانور کے سامنے دوسرے جانور کو ذبح نہیں کرنا چاہیے کہ اِس سے اُس کی دل آزاری ہوتی ہے۔ جانور ذبح کرنے کے لیے چھری خوب تیز ہونی چاہیے، تاکہ جانور کو تکلیف نہ ہو۔جانور ذبح کرنے سے پہلے خوب کھلا پلا لیا جائے تاکہ اُس میں ہمت و طاقت اور توانائی پیدا ہو اور وہ ذبح کے وقت کی تکلیف کو کسی قدر آسانی سے برداشت کرسکے ۔