
راولپنڈی کا صدیوں پرانا ورثہ دربار حضرت سیدسخی شاہ چن چراغ مشہدی
رپورٹ : شکیلہ جلیل
نگاہ ولی میں وہ تاثیر دیکھی
بدلتی ہزاروںکی تقدیر دیکھی
راولپنڈی کی پرانی گلیوں میں جاکر حضرت شاہ چن چراغ کے مزار پر حاضری سے جو سکون ملتا ہے اس کو الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا ،روحانی سکون اور من کی مرادیں پانے کو اس دربار پر حاضری لگاتے ہیں ،اللہ کے اس ولی سے لوگوں کی امیدیں،مرادیں اس دربار سے جڑی ہیں ،آپ جب حضرت شاہ چن چراغ کے مزار پر پہنچتے ہیں تو عجب سکون کا احسا س ہوتا ہے ،حضرت شاہ چن چراغ کے دربار میں آئے کچھ لوگوں کے یہ خیالات تھے ۔جو اپنے دکھ کے گھڑی اور سکھ کی تلاش میں یہاں چلے آتے ہیں ۔
صوفیائے کرام کے کردار سے کسی صورت انکار ممکن نہیں دین اسلام کی تبلیغ کے علاوہ ہمارے تہذیب و تمدن اور روایات پر بھی ان صوفیائے کرام کی گہری چھاپ نظر آتی ہے ۔1625یا1630کا دور ہے جب حضرت شاہ چن چراغ اپنے مرشد کے حکم پر راولپنڈی آتے ہیں اور یہیں ڈیرہ ڈال لیتے ہیں ۔بلکہ بزرگوں سے سنتے آئیں ہیں کہ مرشد نے آ پ کو کچھ نشانیاں بتائیں کہ آپ راولپنڈی جائیں گے تو بارش ہو رہی ہو گی اور آپکو ٹھوکر لگے گی بس وہیں قیام کر لینا ،آپ متعلقہ جگہ پہنچتے ہیں ایک خاتون تندور لگاکر لکڑیاں جلا رہی ہے آپ ٹھوکر لگنے سے سیدھا تندور میں اج گرتے ہیں مگر اللہ کے حکم سے آگ آپ کو نہیں چھوتی ،وہ عورت شور مچا دیتی ہے کہ ایک ایسا شخص آیا ہے جسے آگ کچھ نہیں کہتی ،یوں آپ کی شہرت دور دور تک پھیل جا تی ہے آپ نے اسی جگہ چلا کاٹا ۔ حضرت سخی شاہ چن چراغ کے دربار کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ کسی ایک فرقے کے لوگوں کی دعائوں کا مرکز نہیں بلکہ یہاںپر شیعہ سنی فرقے سے ہٹ کر ہر فرقے سے تعلق رکھنے والے اپنی دعائوں کی قبولیت اور منتوں مرادوں کے لئے آتے ہیں۔
حضرت سخی شاہ چن چراغ بادشاہ نے راولپنڈی میں قیام کیا تو جیسے راولپنڈی کی قسمت ہی بدل گئی ،اس علاقے میں جہاں آپ نے اپنا قیام فرمایا یہاں پر اس دور میں مسلمانوں کی آبادی بہت کم تھی ۔یہاں پر ہندو ،سکھ اورجین مت کے رہنے والے زیادہ تھے ،۔حضرت سخی شاہ چن چراغ بادشاہ کی دین کی تبلیغ سے لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب آیا،تقسیم برصغیر سے قبل آپ سرکار کے مزار پر ہر مذہب کے لوگوں کا رش رہتا تھا ۔آپ نے محبت اور امن کا پیغام دیا اور یہی پیغام آج بھی اثر رکھتا ہے اور لوگ آپ کے دربار حاضری پر اپنے فرقے رنگ نسل مذہب قومیت کو بھول جا تے ہیں ۔دربار کے باہر ان گلیوں میں دائیں بائیں تبرکات کی دکانیں ہیں ۔جہاں سے لوگ تبرکات خرید کر دربار لیکر جاتے ہیں ۔دربار میں داخل ہو نے کیلئے ایک بڑا داخلی دروازہ ہے ،داخلی دروازے سے اندر ہوتے ہیں دائیں سائیڈ پر آپکی چلہ گاہ ہے ،جہاں آپ سرکار نے 12سال تک چلہ کاٹا ۔دربار کے صحن میں غازی عباس علمدار کا ایک بڑا علم نصب ہے جہاں لوگ چراغاں کرتے ہیں اور دعا مانگتے ہیں ۔
حضرت شاہ چن چراغ سخی بادشاہ کب راولپنڈی آئے ،اس دربار کی تاریخ کیا ہے اور لوگوں کی آمد سمیت دربار سے متعلق بہت کچھ جاننے کیلئے ہم نے سجادہ نشین سید اعتبار بخاری الحسینی کے ساتھ ایک نشست رکھی ان سے جو مکالمہ ہو ا وہ قارئین کی دلچسپیء کیلئے پیش ہے ۔
سجادہ نشین سید اعتبار بخاری الحسینی نے حضرت شاہ چن چراغ سخی بادشاہ کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہو ئے بتایا کہ حضرت شاہ چن چراغ سخی بادشاہ کا پورا نام حضرت مرشد سخی شاہ چن چراغ وکاظمی مشہدی ہیں ۔حضرت شاہ چن چراغ سخی بادشاہ کا تعلق چکوال کے ایک گائوں سید کسراں سے ہے ،آپ امام موسیٰ کاظم کی 32لڑی سے ہیں ۔آپ کے والد کا نام شاہ ملوک بادشاہ جبکہ والدہ محترمہ کا نام بنت خاتون مائی ہے ،یہ اپنے مرشد کے حکم پر ساڑھے تین سو سال قبل راولپنڈی میں تشریف لائے ۔اور 12سال آگ کا چلہ کاٹا اور دین اسلام کی تبلیغ میں اپنی زندگی وقف کر دی اور تبلیغ کرتے رہے ۔بچپن میں آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی سے حاصل کی اور قرآن پاک حفظ کیا ۔ان کے والد نے ان کی مزید تعلیم کیلئے انہیں اٹک کے ایک نواحی علاقے میں بجھوادیا ۔آپ حضرت شاہ عبدالطیف المعروف بری امام سرکار کے کزن لگتے ہیں ۔اٹک میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد ،حضرت شاہ چن چراغ اپنے ماموں سید بابا شاہ عنایت کے پاس مظفر آباد چلے جا تے ہیں ۔کچھ عرصہ وہاں رہنے کے بعد آپکے ماموں نے آپ کو حکم دیاکہ اب آپ راولپنڈی چلے جائیں اور نشانی بتائی کہ ایک جنگل ہو گا اور بارش ہو رہی ہو گی ،جہاں ٹھوکر لگے وہیں قیام کر لینا ،اور دین کی خدمت کرنا ،جب آپ سرکار راولپنڈی بابڑا بازار پہنچے تو شدید بارش تھی،یہاں آپ کو ٹھوکر لگی ،اور آپ نے وہیں اپنا قیام کر لیا ۔آہستہ آہستہ آپکی بزرگی کی شہرت لوگوں تک پھیلتی گئی اور لوگ آپ کے پاس دعاکرانے اور اپنی منتوں کیلئے آنا شروع ہو ئے ،آپ کے درس ے بہت سے دلوں کو سکون دیا ، حضرت شاہ چن چراغ سخی بادشاہ کے عرس کی تقریبات تین سو سال سے جاری ہیں ۔،جس میں ملک بھر سے تمام مکاتب فکر کے لوگ شرکت کرتے ہیں ۔پاکستان بننے سے قبل عرس کی تقریبات میں ہندو ،سکھ اور دیگر مذہب سے تعلق رکھنے والے بھی شوق سے جوق در جوق شرکت کرتے تھے ۔ایک سوال کے جواب میں سید اعتبار بخاری نے بتایا کہ عرس کے دوران دربار میں تمام مسالک کے لوگ اکٹھے ہو تے ہیں ،کیونکہ سرکار نے دین اسلام کی تبلیغ کی ،اور اپنی زندگی قرآن و سنت کے مطابق گزاری ہے ،یہاں اہل علاقہ کی بڑی تعداد روزانہ حاضری دیتی ہے ۔منتوں مرادوں کا سلسلہ سارا سال ہی جاری رہتا ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ اللہ کے ولی ہم سے یہاں پر ڈیوٹی لے رہے ہیں ،اور ہم یہاں عوام کی خدمت میں مصروف عمل ہیں ۔