
ماہِ رمضان… نیکیوں کا موسم بہار
ماہِ رمضان… نیکیوں کا موسم بہار
مفتی محمد وقاص رفیع
ماہِ رمضان کی آمد آمد ہے ، یہ رحمتوں اور برکتوں کا موسم بہار ہے ، اس میں خزاں کے پتوں کی طرح گناہ جھڑتے اور موسم بہار کی طرح خیر و بھلائی کی تازہ کونپلیں پھوٹتی ہیں ،مغفرت کی ہوائیں چلتی اور رحمت کی پھوار برستی ہے ، یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے ، یہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کا مہینہ ہے ، اس مہینہ میں مؤمن کا رزق بڑھادیا جاتا ہے ، یہ آخرت کی کمائی اور نیکیوں کی لوٹ مار کا ایک خاص سیزن کہلاتا ہے ، اس میں نفلوں کا ثواب فرضوں جتنا اور فرضوں کا ثواب ستر گنا بڑھادیا جاتا ہے، اس کا پہلا عشرہ رحمت کہلاتاہے ، دوسرا مغفرت کہلاتا ہے اور تیسرا جہنم کی آگ سے خلاصی کہلاتا ہے ۔ (صحیح ابن خزیمہ:1887 )
اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام آسمانی کتابیں اور صحیفے اسی مبارک مہینہ میں نازل فرمائے ہیں ، چنانچہ قرآنِ مجید لوحِ محفوظ سے آسمانِ دُنیا پر تمام کا تمام اسی مہینہ میں نازل ہوا اور وہاں سے حسب موقع تھوڑا تھوڑا تیئس (23) سال کے عرصہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر نازل ہوا ۔ اس کے علاوہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اسی ماہ کی یکم یا تین تاریخ کو صحیفے عطاء کئے گئے ، حضرت داؤد علیہ السلام کو بارہ یا اٹھارہ رمضان میں ” زبور ” عطاء کی گئی ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چھ رمضان میں”تورات” عطاء کی گئی ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بارہ یا تیرہ رمضان میں ”انجیل” عطاء کی گئی ، اور حضور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسم کو چوبیس رمضان میں” قرآن مجید” جیسی مقدس کتاب عطاء کی گئی۔(مسند احمد:16984، المعجم الاوسط للطبرانی:3740)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ماہِ مبارک کو کلام الٰہی کے ساتھ ایک خاص قسم کی مناسب حاصل ہے ، اسی وجہ سے قرآنِ پاک کی تلاوت کی کثرت اس مہینہ میں منقول ہے اور مشائخ کا معمول ہے۔ چنانچہ حضرت جبرئیل علیہ السلام ہرسال رمضان میں تمام قرآن شریف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سناتے تھے اور بعض روایات میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتے تھے ۔ علماء نے ان دونوں حدیثوں کے ملانے سے قرآنِ پاک کے (مروّجہ) باہم دَور کرنے کے مستحب ہونے پر استدلال کیا ہے ۔ (فضائل رمضان بحذف و تغیرص40)
مؤرخین نے لکھا ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ پورے رمضان المبارک میں اکسٹھ (61) قرآنِ مجید ختم کیا کرتے تھے ، ایک دن کا ، ایک رات کا اور ایک تمام رمضان شریف میں تراویح کا۔ اور امام شافعی رحمة اللہ علیہ پورے رمضان المبارک میں ساٹھ (60) قرآنِ مجید ختم کیا کرتے تھے ، اس طرح کہ روزانہ دو قرآنِ مجید پڑھ لیتے تھے اور اس کے علاوہ عام دنوں میں روزانہ ایک قرآنِ مجید ختم فرمایا کرتے تھے ۔(فضائل قرآن)اس کے علاوہ روزانہ دس ، پندرہ پارے پڑھنا تو عام مشائخ کا معمول رہا ہے کہ رمضان نزولِ قرآن کی سالگرہ اور جشن عام کا مہینہ ہے۔
رمضان المبارک کے بابرکت مہینہ میں جنت کے تمام دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے تمام دروازے بند کردیئے جاتے ہیں ۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”جب رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو جنت کے (تمام) دروازے کھول دیئے جاتے ہیںاور جہنم کے (تمام) دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو قید کردیا جاتا ہے۔” (صحیح بخاری:1899)
اور صحیح مسلم کی روایت میں آتا ہے جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ : ”(رمضان کی آمد پر ) رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔” (صحیح مسلم:1079)
ایک حدیث میں آتا ہے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما حضور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ : ”بلاشبہ جنت رمضان کے لئے شروع سال سے اخیر سال تک سجائی جاتی ہے ، پس جب رمضان کا پہلا دن ہوتا ہے تو عرش کے نیچے سے ایک ہوا اُٹھتی ہے ، پھر وہ جنت کے درختوں کے پتوں کو اُڑاتی ہے تو ( اس حسین و جمیل منظر کو دیکھ کر ) حوریں کہتی ہیں کہ : ”اے ہمارے رب! اپنے بندوں میں سے ہمارے لئے شوہر مقرر کردیجئے !جن کے ذریعہ سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور ہمارے ذریعہ سے اُن کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔” (المعجم الاوسط للطبرانی:6800)
حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : ”جنت میں ایک دروازہ ہے جس کا نام ”ریّان” ہے ، اس دروازہ سے قیامت کے دن صرف روزہ دار لوگ داخل ہوں گے ، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمام روزہ داروں کا نام لے کر بلایا جائے گا ، وہ اس دعوت پر کھڑے ہوں گے اور اُن کے علاوہ کوئی اور اس دروازے سے داخل نہیں ہوگا ، پس جب روزہ دار اس دروازے سے داخل ہوجائیں گے تو وہ دروازہ بند کردیا جائے گا، پھر اس دروازہ سے اس کے بعد کوئی داخل نہیں ہوسکے گا۔”(صحیح بخاری:1896 ،صحیح مسلم:166)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوجاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا ازار بند کس لیتے ، پھر جب تک رمضان گزر نہ جاتا اپنے بستر پر تشریف نہ لاتے۔” ایک دوسری روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی مروی ہے کہ جب رمضان کا مہینہ آتا تو رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ بدل جاتا، نماز میں اضافہ ہوجاتا ، دُعاء میں آہ و زاری بڑھ جاتی اور آپۖ کا رنگ سرخ ہوجاتا۔”(شعب الایمان للبیہقی:3353)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ و خیرات کے کاموں میں لوگوں میں سب سے زیادہ سخی اور فراخ دل تھے ،اور جس وقت رمضان المبارک میں حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ کی ملاقات کے لئے حاضر ہوتے تو اُس وقت آپ کی سخاوت و فیاضی بہت زیادہ بڑھ جاتی اور آپ حضرت جبرئیل علیہ السلام سے رمضان ختم ہونے تک ہر رات میں ملاقات فرماتے اور حضرت جبرئیل علیہ السلام کو قرآن مجید سناتے ، پس جب آپ سے حضرت جبرئیل علیہ السلام ملاقات کرتے تو آپ صدقہ و خیرات کے کاموں میں تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی اور فراخ دل ہوجایا کرتے تھے۔” (صحیح بخاری:06)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ : ”رمضان (کے روزہ) کے بعد کون سا روزہ افضل ہے ؟ ” آپ نے فرمایا کہ : ” رمضان کی تعظیم کی وجہ سے شعبان کا روزہ رکھنا افضل ہے ۔” پھر سوال کیا گیا کہ : ”کون سا صدقہ افضل ہے ؟” آپ نے فرمایا کہ : ”رمضان میں صدقہ کرنا افضل ہے۔”(جامع ترمذی:663)
حضرت راشد بن سعد رحمة اللہ علیہ سے مرسلاً روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ : ”رمضان کے مہینہ میں (اپنے بیوی بچوں کے ) نان و نفقہ میں کھلا ہاتھ رکھا کرو! اس لئے کہ اس مہینہ میں ( بیوی بچوں کے ) نان و نفقہ میں کھلا ہاتھ رکھنا ایسا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں خرچ کرنا ۔(ابن ابی الدنیا:409)
حضرت اُم معقل رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”رمضان میں عمرہ کرنا حج کے برابر (فضیلت رکھتا) ہے ۔ (جامع ترمذی:939)
ایک حدیث میں آتا ہے ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ : ” میری اُمت کو رمضان شریف کے بارے میں پانچ چیزیں مخصوص طور پر عطاء کی گئی ہیں جو پہلی اُمتوں کو نہیں ملیں :
1ـان کے منہ کی بدبو اللہ تعالیٰ کے یہاں مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔
2ـان کے لئے دریا کی مچھلیاں تک دُعاء کرتی ہیں اور افطار تک کرتی رہتی ہیں۔
3ـجنت ہر روز اُن کے لئے آراستہ کی جاتی ہے ، پھر حق تعالیٰ شانہ فرماتے ہیں کہ : ” قریب ہے کہ میرے نیک بندے (دُنیا کی) مشقتیں اپنے اوپر سے پھینک کر تیری آطرف آجائیں ۔”
4ـاس میں سرکش شیاطین قید کردیئے جاتے ہیں کہ وہ رمضان میں اُن برائیوں کی طرف نہیں پہنچ سکتے جن کی طرف اور دنوں میں پہنچ سکتے ہیں۔
5ـرمضان کی آخری رات میں ( تمام ) روزہ داروں کی مغفرت کی جاتی ہے ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یہ ”شبِ مغفرت” ”شبِ قدر” ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” نہیں! بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کو کام ختم ہونے کے وقت مزدوری دے دی جاتی ہے۔” (مسند احمد :7917)
فائدہ:چوں کہ رمضانُ المبارک کی راتوں میں ”شبِ قدر” سب سے افضل رات ہے ، اس لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے خیال فرمایا کہ اتنی بڑی فضیلت اسی رات کے ہوسکتی ہے ، مگر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : ”اس کے فضائل مستقل علیحدہ چیز ہیں ۔”
ایک حدیث میں آتا ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : ”رمضان المبارک کے مہینہ میں چار چیزوں کی کثرت رکھا کرو! جن میں سے دوچیزیں اللہ تعالیٰ کی رضاء کے واسطے ہیں اور دو چیزیں ایسی ہیں کہ جن سے تمہیں چارۂ کار نہیں ، پہلی دو چیزیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو، وہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے، اور دوسری دو چیزیں یہ ہیں کہ جنت کی طلب کرو اور جہنم سے پناہ مانگو ۔” (صحیح ابن خزیمہ:1887)
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ : ”جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے ، اس کے لئے گناہوں کے معاف ہونے اور (جہنم کی) آگ سے چھٹکارا پانے کا سبب ہوگا اور روزہ دار کے ثواب کی طرح اس کو بھی ثواب ہوگا ، مگر اس روزہ دار کے ثواب سے کچھ کم نہیںکیا جائے گا ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : ” یارسول اللہ! ( صلی اللہ علیہ وسلم) ہم میں سے ہر شخص تو اتنی وسعت نہیں رکھتا کہ روزہ دار کو افطار کرائے ۔” تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : ”(اس سے پیٹ بھر کر کھلانا مراد نہیں ہے ) بلکہ یہ ثواب تو اللہ تعالیٰ کسی کو ایک کھجور سے روزہ افطار کرادینے سے ، ایک گھونٹ لسی کا پلادینے سے بھی عطا فرمادیتے ہیں۔(صحیح ابن خزیمہ:1887)
ایک حدیث میں آتا ہے حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جبرئیل علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور تین شخصوں کے بارے میں بد دُعاء کی جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین کہا ، من جملہ اُن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ ہلاک ہوجائے وہ شخص جو رمضان المبارک کا مہینہ پائے اور پھر بھی اُس کی مغفرت نہ ہو۔”(مستدرک حاکم بحذف و اختصار:7256)
ایک اور حدیث میں آتا ہے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کے قریب ارشاد فرمایا کہ : ”رمضان کا مہینہ آگیا ہے جو بڑی برکت والا ہے ، حق تعالیٰ شانہ اس میں تمہاری طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اپنی رحمت خاصہ نازل فرماتے ہیں ، خطاؤں کو معاف فرماتے ہیں ، دُعاء کو قبول کرتے ہیں ، تمہارے ”تنافس” (یعنی نیکی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے) کو دیکھتے ہیں اور ملائکہ سے فخر کرتے ہیں ، پس تم اللہ تعالیٰ کو اپنی نیکی دکھلاؤ! ، بد نصیب ہے وہ شخص جو اس مہینہ میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم رہ جائے۔(المسند الشاشی: 1224)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : ”خود حق تعالیٰ شانہ اور اُس کے فرشتے ”سحری” کھانے والوں پر رحمت نازل فرماتے ہیں۔”(صحیح ابن حبان:3467 ،المعجم الاوسط للطبرانی:6434 )
ایک حدیث میں آتا ہے حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : ”سحری” کھا کر روزہ پر قوت حاصل کرو!۔” ایک اور جگہ ارشاد ہے کہ : ”ہمارے اور اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کے روزہ میں ”سحری” کھانے سے فرق ہوتا ہے کہ (ہم لوگ ”سحری” کھاتے ہیں اور) وہ ”سحری” نہیں کھاتے۔ (فضائل رمضان:45)
حضرت عبد اللہ بن حارث رضی اللہ عنہ ایک صحابی سے نقل کرتے ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایسے وقت حاضر ہوا کہ آپ ”سحری” نوش فرمارہے تھے۔” (فضائل رمضان)
رمضان المبارک کی راتوں میں سے ایک رات ”شبِ قدر” کہلاتی ہے جو بہت ہی خیر و برکت والی رات ہے ، قرآنِ پاک میں اس کو ہزار مہینوں سے افضل بتلایا گیا ہے ، ہزار مہینوں کے تراسی برس اور چار ماہ ہوتے ہیں ، خوش نصیب ہے وہ شخص جس کو اس رات کی عبادت نصیب ہوجائے ۔ چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ : ”شبِ قدر” (صرف ) اللہ تعالیٰ نے میری اُمت کو مرحمت فرمائی ہے ، پہلی اُمتوں کو نہیں ملی ۔” (دُرّمنثور:ج8ص570)
چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : ”ایک مرتبہ رمضان المبارک کا مہینہ آیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : ”تمہارے اوپر ایک مہینہ آیا ہے ، جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے ، جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا گویا وہ ساری ہی خیر سے محروم رہ گیا ، اور اس کی بھلائی سے محروم نہیں رہتا مگر وہی شخص جو کہ حقیقتاً ہی محروم ہو۔” (سنن ابن ماجہ:1644)
ایک حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : ” جو شخص ” لیلة القدر” (شبِ قدر) میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے لئے) کھڑا ہو، اُس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔” (صحیح بخاری:1901،صحیح مسلم:179)
رمضان المبارک کے بابرکت مہینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عادت شریفہ اعتکاف کی ہمیشہ رہی ہے ، اس مہینہ میں تمام مہینہ کا اعتکاف فرمایا اور جس سال وصال ہوا ہے اس سال بیس روز کا اعتکاف فرمایا تھا ، لیکن اکثر عادت شریفہ چوں کہ اخیر عشرہ ہی کے اعتکاف کی رہی ہے اس لئے علماء کے نزدیک”سنت مؤکدہ” اعتکاف اخیر عشرہ ہی کا ہے ۔ اور چوں کہ اس اعتکاف کی بڑی غرض ”شبِ قدر” کی تلاش ہے اس لئے حقیقت میں اعتکاف اس کے لئے بہت ہی مناسب ہے ۔(فضائل رمضان:57)
ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد وارد ہوا ہے کہ اعتکاف کرنے والا شخص گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اور اُس کے لئے نیکیاں اتنی ہی لکھی جاتی ہیں جتنی کہ کرنے والے کے لئے۔ (سنن ابن ماجہ)
مطلب یہ ہے کہ بہت سے نیک اعمال جیسے جنازہ میں شرکت ، مریض کی عیادت وغیرہ ایسے اُمور ہیں کہ اعتکاف میں بیٹھ جانے کی وجہ سے اعتکاف میں بیٹھنے والا شخص ان کو نہیں کرسکتا ، اس لئے اعتکاف کی وجہ سے جن عبادتوں سے وہ رُکا رہتا ہے اُن کا اجر بغیر کئے بھی اُسے ملتا رہتا ہے۔(فضائل رمضان:29)
کتنے خوش قسمت اور خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس مبارک مہینہ کے ایک ایک لمحہ کی دل و جان سے قدر کرتے ہیں ، اُن کے شب و روز میں خوف خدا سے آہوں اور سسکیوں کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے اور اُن کے اشک ہائے ندامت دل کا میل اور اُس کی کدورتوں کو بہاتے دکھائی دیتے ہیں ۔ بلاشبہ ماہِ رمضان روحانیت اور نیکیوں کا موسم بہار ہوتا ہے ، یہ مہینہ رحمت و مغفرت کی معطر ہواؤں سے مشک بار ہوتا ہے۔