Official Website

عورت ذہنی و جسمانی تشدد کے کرب سے دوچار

گھر سے نکلنے والی عورت کو قدم قدم پر ذہنی و نفسیاتی اذیت سے گزرنا پڑتا ہے

53

عورت ذہنی و جسمانی تشدد کے کرب سے دوچار
عورت کا اپنے حق کیلئے آواز اٹھانا موجودہ ترقی یافتہ دور میں بھی ایک جرم سے کم نہیں
گھر سے نکلنے والی عورت کو قدم قدم پر ذہنی و نفسیاتی اذیت سے گزرنا پڑتا ہے
تحفظ نسواں کے قوانین پاس ہونے کے باوجود خواتین کے حقوق مسلسل پامال ہو رہے ہیں
شکیلہ جلیل
shakila.jalil01@gmail.com

عورت جو کائنات کا حسن اور گھر کی زینت ہے جو ہر اعتبار اور رشتے سے قابل احترام ہے ماں ہے تو اس کے قدموں تلے جنت ہے بہن ہے تو بھائیوں کی آبرو اور بیٹی کی صورت میں باپ کیلئے رحمت اور اسی طرح اگر بیوی کے درجے پر فائز ہے تو شوہر کیلئے اللہ کا خوبصورت تحفہ ہے۔ اس کی جان اور زندگی بھی اسی طرح معتبر ہے جس طرح ایک مرد کی ۔ مگر ایسا نہ ہو سکا زمانہ جاہلیت میں بینی کو بوجھ تصور کیا جاتا ہے اور پیدا ہوتے ہی زندہ در گور کر دیا جاتا۔ لیکن اسلام جیسے عالمگیر مذہب نے خواتین کو حقوق دئیے۔ جائیداد میں بھی ان کو حصہ دیا ساتھ ہی اپنی مرضی سے شادی کرنے کا حق بھی دیا۔ اسلام چونکہ دین فطرت ہے لہذا اعتدل پسندی کا درس دیا اس لئے اس نے خواتین کے حقوق کے بارے میں واضح حدود متعین کر دیں اور ساتھ ہی عورت کو اس کے فرائض سے آگاہی بھی دی۔ لیکن اس کے باوجود خواتین کو تحفظ ملنے کی بجائے اس پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے،خواتین کو مختلف رسموں کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے ،علاقوں کے رواج کی نسبت سے رسموں کے نام تبدیل ہو جا تے ہیں لیکن خواتین قربان ہوتی رہتی ہیں ۔ کہیں غیرت کے نام پر خواتین قتل ہو رہی ہیں تو کبھی قرآن سے شادی کی قبیح رسم کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں ۔ پاکستان ایک ترقی پذیر اور پسماندہ ملک ہے۔ ایسے ممالک میں لوگوں کا ایک دوسرے پر تشدد کوئی اچھنبے کی بات نہیں مگر پچھلے چند سالوں سے جس طرح خواتین پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ وہ حیرت انگیز ہے۔

سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (ایس ایس ڈی او)اور سینٹر فار ریسرچ، ڈویلپمنٹ اینڈ کمیونیکیشن(سی آر ڈی سی)کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق 2023کے پہلے چار ماہ کے دوران پنجاب میں خواتین کے خلاف تشدد کے دس ہزار سے زائد واقعات رپورٹ ہو ئے ۔ پنجاب میں5551 خواتین کو اغوا کیا گیا، یعنی اوسطاً ہر ایک گھنٹے میں 2 خواتین کو اغوا کیا گیا،اس مدت میں ریپ کے 1111 اور انسانی اسمگلنگ کے 613 کیسز رپورٹ ہوئے۔اسی طرح سے اگر گذشتہ سال کے اعداد و شمار پر نظر ڈالی ،تو 2022 کے پہلے 10 مہینوں میں پنجاب میں بچوں سے زیادتی کے 4503 کیسز، خواتین سے زیادتی کے 3088 کیسز رپورٹ ہوئے، جبکہ بچوں سے زیادتی کے 27 فیصد واقعات صرف لاہور میں ہوئے۔ ایس ایس ڈی او نے پنجاب میں خواتین اور بچوں کے خلاف زیادتی کے واقعات پر رپورٹ لانچ کردی۔سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (ایس ایس ڈی او)کی تحقیق کے مطابق رواں سال اکتوبر کی31 تاریخ تک صوبہ پنجاب میں بچوں سے زیادتی کے 4503 اور خواتین سے زیادتی کے 3088واقعات ہوئے۔یہ ڈیٹا پنجاب پولیس سے حاصل کیا گیا، جس نے یکم جنوری 2022 سے 31 اکتوبر 2022 تک کے کیسز کا ڈیٹا اکٹھا کیا۔
خواتین اور بچوں کے خلاف تشدد پر نظر ڈالیں تو اس عرصے میںلاہور اور فیصل آباددونوں میں سب سے زیادہ کیسز کے ساتھ سرفہرست رہے جب کہ زیادتی کے کیسز میں سرگودھا، ملتان اور شیخوپورہ میں زیادہ کیسز سامنے آئے ، جب کہ شیخوپورہ، قصور، گوجرانوالہ اور راولپنڈی بچوں سے زیادتی کے کیسز میں آگے رہے۔ بچوں کے ساتھ زیادتی کے 27 فیصد واقعات صرف لاہور میں پیش آئے، ۔ اسی طرح، دوسری طرف، جہلم، چکوال، میانوالی، نارووال اور خوشاب جیسے اضلاع خواتین اور بچوں کے خلاف سب سے کم تشدد کے واقعات میں شامل ہیں۔
پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں ہر سال دس سے 12 لاکھ خواتین کی خرید و فروخت ہوتی ہے جبکہ بنگلہ دیش ، سری لنکا ہندوستان اور پاکستان کے بعض علاقوں سے انسانی سمگلر ہر سال لاکھوں خواتین کو بیرون ممالک جسم فروشی اور بیگار لینے کے لئے اسمگل کرتے ہیں۔ گھر سے نکلنے والی عورت کو ہر قدم پر ذہنی و نفسیاتی اذیت اور مردوں کے جارحانہ کردار کا سامنا کرنا پڑتا ہے راہ چلتے لوگوں کی چھتی ہوئی نظریں، ناشائستہ جملے بے ہودہ مذاق فلمی گانے، تیز سیٹیاں اور ٹھنڈی آمین کہنی مار دینا جان بوجھ کر ٹکراتے ہوئے چلنا ، مردوں کے رویے کی نہایت عام مثالیں ہیں اور یہ رویہ انہوں نے بھری پری جگہوں بازاروں اور بس اسٹاپ پر اپنا رکھا ہے اب تو ایک تنہا لڑکی کا کسی سنسان راستے سے گزرنا بہت ہی بڑا مسئلہ بن گیا ہے ، مردوں کا ایک گروہ جو اپنی عورتوں کو گھر میں مقید رکھتا ہے اور اس سلسلے میں معاشرتی و مذہبی دلائل کا استعمال بڑی خوبصورتی اس اس جہ یہ ہے کہ در حقیقت وہ خود باہر نکلتا ہے تو باہر کی ہر عورت کو بری نظر سے دیکھتا ہے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے یہ اس کے قول و عمل کا تضاد ہے جس کی بنا پر وہ لاشعوری طور پر اپنے جیسے ہی کسی ایسے شخص سے خوفزدہ ہوتا ہے جو اس کے گھر سے باہر نکلنے والی عورت پر ویسی ہی نگاہ ڈالے گا جیسی کہ وہ خود دوسری عورتوں پر ڈالتا ہے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے مرداور کوئی خصوصیت رکھتے ہو ں یا نہیں ،مگر وہ عورت پر ہاتھ اٹھانا فخر سمجھتے ہیں گویا کہ یہ بھی مردانگی اور برتری کی نشانی ہے ۔ازدواجی زندگی سے متعلقہ بہت سے حقائق اور مسائل مثلا اولاد پیدا نہ ہونے یا لڑکا نہ ہونے کی ذمہ دار عورت ٹھہرائی جاتی ہے اور غیر انسانی رویے کا مظاہرہ کرتا ہے طلاق کے داغ سے بچنے کی خاطر عورت جسمانی تشدد کے مسلسل کرب کو سہنے پر مجبور ہو جاتی ہے اور یوں مرد ذہنی ، روحانی اور جسمانی جارحیت کے نت نئے طریقے آزماتا چلا جاتا ہے۔ غربت اور نچلے طبقے کی عورتیں (جن میں گھروں میں کام کرنے والی یعنی برتن یا صفائی کرنے والی عورتیں خصوصیت سے شامل ہیں)جن کے شوہر بے روزگار مجرم، نشے کے عادی ہوتے ہیں اور کوئی کام نہیں کرتے وہ پورے گھر کی معاشی کفالت کررہی ہوتی ہیں اگر چہ اس مخصوص گروہ کے مردوں میں کام کرنے کی طاقت یا حوصلہ نہیں ہوتا لیکن اتنی ہمت اور طاقت ضرور ہوتی ہے کہ وہ اپنی عورت پر ہاتھ اٹھا سکیں اور اس کے ساتھ بدسلوکی کر سکیں یہ محنت کش عورتیں ایک طرف تو اپنے مردوں کے ہاتھوں ستائی ہوئی ہوتی ہیں تو دوسری طرف جہاں وہ کام کرتی ہیں وہاں صاحب کی نظر عنایت سے بچنابھی خاصا دشوار ہو جاتا ہے، جنسی تشدد کی یہ صورت کوئی نہیں ہے بلکہ اسی تاریخی تسلسل کی ایک کڑی دکھائی دیتی ہے جو جاگیردارانہ نظام میں مروج رہا ہے جس کے تحت جاگیردار اپنے گھر اور کھیتوں پر کام کرنے والی غریب بے کس عورتوں پر اتنا ہی حق سمجھتے تھے جتنا کہ اپنی جاگیر پر یا کھیتوں سے حاصل ہونے والی فصل پر۔
ہمارے معاشرے میں آج بھی اطاعت کرنا عورت کا فرض اور اپنے حق کے لئے آواز بلند کرنا بغاوت اور جرم سمجھا جاتا ہے جس کی سزا ہاتھ پائوں تو ڑ دینے اور چہرہ بگاڑنے سے لے کر موت تک کچھ بھی ہو سکتا ہے یہی وہ سوچ ہے جس کی بنا پر ملک کے مختلف علاقوں میں بد کردار مردوں کو قتل سے بچانے کے لئے اس کے خاندان کی کسی لڑکی کو کاری کے خاندان میں بیاہنا ، قاتل کو معافی دلانے کے لئے اس کے خاندان کی تمام عورتوں کا ننگے سر ننگے پائوں مقتول کے گھر جا کر معافی مانگنا، دشمنی ختم کرنے کے لئے کمسن لڑکیوں کی عمر رسیدہ مردوں سے شادی اور انہیں ونی بنانا اور زیادتی کا بدلہ لینے کے لئے ملزم کے خاندان کی عورتوں کے ساتھ شرمناک سلوک کرنا جیسے واقعات عام ہوتے ہیں اور ایسا کرنا معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ یہاں پر قابل غور بات یہ ہے کہ خواتین کے خلاف ہر قسم کے تشدد کو ختم کرنے کے لئے صرف قوانین بنا دینا ہی کافی نہیں ، بلکہ ان قوانین کا ہر طرح کے نقائص سے پاک ہونا، موجودہ قوانین جن میں کسی بھی قسم کی ترامیم کی گنجائش موجود ہے انہیں بہتر بنانا اور ان پر باقاعدہ عمل درآمد کو یقینی بنانا ضروری ہے ایسے بہت سے قوانین ہیں جو مظلوم عورت کی دادرسی کی بجائے اس پر تشدد کرنے والے مردوں کے حق میں زیادہ ہیں مثال کے طور پر آبروریزی اور جنسی جرائم کی رپورٹ درج کرانے سے مظلوم عورت اور اس کے خاندان والے ہچکچاتے ہیں ،خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی یہ تنظیمیں مستورات کو تو ان کے حقوق سے حوالے سے آگاہ کر رہیں مگر وہ طبقہ جو ان حقوق کو اپنا بنیادی حق سمجھ کر پامال کرتا ہے اس کو یہ باور کروانے کی کوشش نہیں کر رہیں کہ خواتین پر ظلم کی تمام شکلیں انسانیت کے خلاف جرم ہیں اور ایسا کرنے سے وہ ایک سنگین جرم کے مرتکب ہورہے ہیں ۔ جس کا کوئی اخلاقی مذہبی یا قانونی جواز نہیں ہے اس طبقہ سے ہماری مراد بلا شبہ اس معاشرے کا مرد ہے جو عورت کو اپنی جاگیر اور اس پر ہر قسم کا جبر کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ خواتین کے خلاف ہونے والے تشدد کے حوالے سے پاکستان میں ہر طرح کے قوانین موجود ہیں مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ان قوانین کا پراپر اطلاق ہو۔اور جو خواتین ہمت کرکے مردوں کے مدمقابل کھڑی ہو جاتی ہیں انہیں تحفظ بھی ملے اور انصاف بھی ۔تبھی نہ صرف خواتین اپنے حق کیلئے باہر آئیں گی بلکہ وہ باقی خواتین کیلئے بھی مثال بنیں گی ۔