Official Website

مسلسل پریشانی آدمی کو دل کا مستقل مریض بنا سکتی ہے، تحقیق

99

بوسٹن: امریکا میں چالیس سالہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ مسلسل پریشانیاں آدمیوں میں دل کی بیماریوں اور ذیابیطس سمیت کئی امراض کا خطرہ بڑھا دیتی ہیں۔

البتہ عورتوں کے بارے میں ایسا کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ یہ تحقیق صرف مردوں پر کی گئی ہے۔

بوسٹن یونیورسٹی کے ماہرین کی یہ تحقیق ’’جرنل آف امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہے جس میں عمر رسیدگی سے متعلق وسیع امریکی مطالعے میں جمع شدہ معلومات استعمال کی گئیں۔ ’’نارمیٹیو ایجنگ اسٹڈی‘‘ کہلانے والا یہ مطالعہ 1963 میں شروع ہوا اور آج بھی جاری ہے۔
بوسٹن یونیورسٹی کے طبّی ماہرین نے اس مطالعے کے تحت 1550 مرد امریکیوں کی صحت کے بارے میں 1975 سے 2015 تک جمع کیے گئے اعداد و شمار کا محتاط جائزہ لیا۔

مطالعے کے آغاز پر ان آدمیوں کی اوسط عمر 53 سال تھی جبکہ انہیں کوئی شدید بیماری بھی نہیں تھی۔

ان افراد میں ہر تین سے پانچ سال بعد بلڈ پریشر، کولیسٹرول، شوگر اور بی ایم آئی سمیت ان سات چیزوں کی پیمائشیں لی جاتی رہیں جن میں خلافِ معمول کمی بیشی کو صحت کےلیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔

جن آدمیوں نے دوسروں کی نسبت زیادہ تشویش اور پریشانی میں مبتلا رہنے کی شکایت کی تھی، ان میں دل کی بیماریوں، فالج اور ذیابیطس کا خطرہ بھی 10 سے 13 فیصد زیادہ دیکھا گیا۔

مالی مسائل سے لے کر گھریلو ناچاقی تک، ان آدمیوں کی تشویش اور پریشانی کے کئی اسباب تھے جن کے نتیجے میں انہوں نے پابندی سے ورزش کرنا چھوڑ دیا تھا جبکہ سگریٹ اور شراب نوشی کی مضر عادتوں میں بھی مبتلا ہوگئے تھے۔

ان ہی خراب عادتوں کی وجہ سے ان آدمیوں کو بعد ازاں فالج، دل کے دورے اور ذیابیطس وغیرہ کا سامنا کرنا پڑا۔

تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا تشویش (anxiety) کی بناء پر یہ لوگ اپنی روزمرہ کی معمولی پریشانیوں اور مسائل تک کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے عادی ہوگئے تھے جبکہ ان میں اسی دوران بلڈ پریشر، مضر کولیسٹرول (ایل ڈی ایل) اور بلڈ شوگر میں بھی نمایاں طور پر اضافہ دیکھا گیا۔

تحقیق کی مرکزی مصنفہ ڈاکٹر لیوینا او لی نے وضاحت کی ہے کہ اس میں جن مردوں کی صحت سے متعلق اعداد و شمار کا تجزیہ کیا گیا ان کی اکثریت سفید فام تھی جبکہ اس میں کوئی خاتون شامل نہیں تھی۔

اگرچہ انہیں امید ہے کہ دوسری نسلوں سے تعلق رکھنے والوں اور خواتین کےلیے بھی تحقیق کے نتائج تقریباً یہی ہونے چاہئیں لیکن جب تک اس حوالے سے مزید تحقیق نہیں ہوتی، کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔