
خوشگوار پرانی یادیں بھی درد کا مداوا ہوسکتی ہیں، تحقیق
بیجنگ: شاعروں نے یاد ماضی کو عذاب سمجھا ہے جس میں کوئی شک بھی نہیں لیکن سائنس کہتی ہے کہ مثبت اور خوشگوار یادیں یا ناسٹجلیا سے درد کی شدت کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
وجہ یہ ہے کہ اچھی اور دلچسپ یادوں سے دماغ کے اندر درد کی سرگرمی ماند پڑسکتی ہیں۔ چینی ماہرین نے اس کا انکشاف دماغی سرگرمیوں کی اسکیننگ سے کیا ہے اور اس کی روداد جرنل آف نیورو سائنس میں شائع کی ہے۔
چینی اکادمی برائے سائنس کے ماہرین نے کئی بالغ افراد کے دماغ کے فنکشنل (ایف) ایم آرآئی کیے۔ اس میں مختلف افراد کو یادوں سے وابستہ تصاویر دکھائی گئیں اور اس دوران دماغ میں درد کی ایک سرگرمی تھرمل اسٹیوملائی کو نوٹ کیا۔
اس میں بچپن، اسکول کی عمر اور لڑکپن کی تصاویر مثلاً اس وقت کا مشہور کارٹون، مقبول کھیل، کوئی ٹافی وغیرہ دکھائی گئی۔ ساتھ ہی آج کے دور کی مشہور تصاویر بھی دکھائی گئیں۔ اس پورے عمل کے دوران تمام رضا کاروں کے دماغ کا ایف ایم آر آئی سے جائزہ لیا گیا۔
ماہرین نے دیکھا کہ جب جب انہیں بچپن کی خوشگوار یادوں سے وابستہ تصاویر دکھائی گئیں تو ان کے دماغ میں درد کی شدت یا اس سے وابستہ مقام پر سرگرمی دیکھی گئی۔ قریباً تمام شرکا نے جدید تصاویر کے مقابلے میں ماضی کی یاد سے جڑی تصاویر دیکھ کر درد میں کمی کا اعتراف کیا اور اپنے سکون کا اظہار بھی کیا۔ اس ضمن میں پرانی یادوں کا سب سے مثبت اثر دیکھنے میں آیا۔
ڈاکٹروں کے مطابق خوشگوار یادوں سے وابستہ کوئی تحریر، تصویر یا ویڈیو وغیرہ دیکھنے سے دماغ کے دو حصوں کی سرگرمی کم ہوتی ہے۔ ان میں لیفٹ لینگول جائرس اور پیرا ہیپوکیمپل جائرس شامل ہیں۔
یہ دونوں مقام درد محسوس اور پروسیس کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پھر اسی مقام سے تکلیف کا احساس آگے تک پہنچتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس طرح کسی دوا کے بغیر درد کم کیا جاسکتا ہے۔
اس تحقیق سے معلوم ہوا ہےکہ جب درد محسوس کریں تو خوشگوار یادوں کو ذہن میں تازہ کریں یا پھر اس سے وابستہ اشیا پر غور کریں۔