
کیا دنیا کی پہلی ممی 8 ہزار سال قدیم پرتگالیوں نے بنائی تھی؟
لزبن: سویڈن اور پرتگال کے ماہرینِ آثارِ قدیمہ کا کہنا ہے کہ دنیا کی پہلی ممی قدیم چلی یا قدیم مصر میں نہیں بلکہ 8 ہزار سال پہلے ’وادیٴ سادو‘ میں بنائی گئی تھی جو آج پرتگال کا حصہ ہے۔
یہ دعویٰ انہوں نے حال ہی میں ملنے والی کچھ پرانی تصویروں کی بنیاد پر کیا ہے جو ایک مشہور پرتگالی ماہرِ آثارِ قدیمہ نے 1960 کے عشرے میں کھینچی تھیں۔
بتاتے چلیں کہ مرنے کے بعد کسی شخص کے جسم پر کچھ خاص مسالوں والی پٹیاں لپیٹ کر لاش کو محفوظ کرنے کا عمل ’ممی سازی‘ (ممی فکیشن) کہلاتا ہے جبکہ دنیا بھر میں مصری فرعونوں کی ممیاں زیادہ شہرت رکھتی ہیں۔
اب تک کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ مصر میں آج سے 5700 سال پہلے ممی سازی کا آغاز ہوا تھا جبکہ چلی سے ملنے والی بعض ممیاں 7000 سال قدیم، یعنی مصری ممیوں کے مقابلے میں تقریباً 1300 سال پرانی ہیں۔
یورپ سے دریافت ہونے والی قدیم ترین ممی ’’اُوٹزی‘‘ لگ بھگ 5300 پرانی، یعنی مصری ممیوں سے 400 سال بعد کے زمانے کی ہے۔
البتہ یورپی ماہرینِ آثارِ قدیمہ کا تازہ انکشاف یہ ثابت کرتا ہے کہ یورپ میں ممی سازی کا آغاز، چلی سے بھی ایک ہزار سال پہلے ہوچکا تھا۔
مشہور پرتگالی ماہرِ آثارِ قدیمہ مانوئل فارنہا دوس سانتوس نے 1960 کے عشرے میں سادوس ویلی کے علاقے سے 13 انسانی ڈھانچوں کئی تصویریں کھینچیں جو 8 ہزار سال قدیم تھے۔
بدقسمتی سے نہ تو وہ ان ڈھانچوں کو نکلوا پایا اور نہ ہی وہ تصویریں دھلوا کر کہیں شائع کروا سکا۔
البتہ اس نے اپنے ہاتھ سے اردگرد کے علاقے کا ایک نقشہ بنانے کے علاوہ کچھ تفصیلات بھی نوٹ کرلی تھیں جو 2001 میں اس کے انتقال کے بعد پرتگال کے قومی عجائب گھر میں رکھ دی گئیں۔
اس کے کئی سال بعد مانوئل فارنہا کا کچھ اور ذاتی سامان دستیاب ہوا جس میں کچھ فلم رولز بھی شامل تھے جنہیں دھلوایا نہیں گیا تھا۔
فلم رولز دھلوانے پر ان تصویروں کے بارے میں دنیا کو پہلی بار معلوم ہوا، جبکہ کچھ اور دستی تحریروں سے پتا چلا کہ ان کا تعلق پرتگال میوزیم میں رکھے گئے، مانوئل فارنہا کے بنائے ہوئے نقشے اور نوٹس سے ہے۔
انہی تصویروں کے تجزیئے اور مانوئل فارنہا کی تحریر کردہ وضاحتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اب ماہرین کا کہنا ہے کہ دفناتے وقت ان تمام افراد کی ممیاں بنائی گئی تھیں۔
تصویروں میں دکھائی دینے والے ڈھانچوں کی ٹانگیں پیٹ کی طرف غیرمعمولی طور پر مڑی ہوئی ہیں جنہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ شاید مرنے والوں کو بعد سوتی رسیوں کے ساتھ مضبوطی سے جکڑ کر کئی دنوں کےلیے یونہی چھوڑ دیا گیا تھا۔
البتہ، اندازوں کا سلسلہ یہیں تک نہیں رکا بلکہ اوپن یونیورسٹی پرتگال، اپسلا یونیورسٹی سویڈن اور لینئس یونیورسٹی سویڈن کے ماہرین نے اس سے بھی آگے بڑھ کر خیال ظاہر کیا ہے کہ رسیوں میں جکڑنے کے کئی دن بعد جب ان میتوں کا جسم بڑی حد تک سوکھ گیا اور ان کا وزن بھی خاصا کم ہوگیا تو پھر ان پر ممی سازی کی کارروائی کی گئی۔
سادوس ویلی کے نمی سے بھرپور ماحول میں زمین کے اندر لمبے عرصے تک دفن رہنے کے بعد وہ رسیاں اور ممی بننے کی تمام نشانیاں ان لاشوں پر سے ختم ہوگئیں۔ البتہ ان کے جسم ویسی ہی حالت میں رہ گئے کہ جس میں انہیں دفن کیا گیا تھا۔
تصویروں کی بنیاد پر قائم کیا گیا یہ خیال درست تھا یا غلط؟ یہ جاننے کےلیے ان سائنسدانوں نے محتاط کمپیوٹر سمیولیشن تیار کروائی تاکہ رسیوں سے بندھی ہوئی لاش سے ممی بنانے اور بعد ازاں لمبے عرصے تک قدرتی ماحول میں اس کے گلنے سڑنے کا مشاہدہ کرسکیں۔
کمپیوٹر سمیولیشن کے علاوہ بھی انہوں نے مختلف جدید تکنیکوں سے مدد لی۔
غرض ہر پہلو سے اس خیال کی تصدیق ہوئی، جس کے بعد انہوں نے اپنی تحقیق کی مکمل تفصیلات ’’یورپین جرنل آف آرکیالوجی‘‘ میں اشاعت کےلیے بھیج دیں جو اس کے حالیہ شمارے میں شائع ہوچکی ہیں۔
دیگر ماہرین کو اس دریافت پر کچھ خاص حیرت نہیں ہوئی کیونکہ اسرائیل میں ’’الواد‘‘ اور ’’عین الملاحہ‘‘ سے مبینہ طور پر دس ہزار سال قبل ممی سازی کے آثار ملے ہیں جبکہ کوستینی، بیلارس میں بھی آج سے 30 ہزار سال پہلے ممی سازی کے شواہد موجود ہیں جن پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔